غزل
لکھنے بیٹھیں تو گزر جائے صدی فٹ پاتھ پر
کرنے والے کر گئے وه شاعری فٹ پاتھ پر
ہم نے دیکھا ہے یہ زورِ عشق بھی فٹ پاتھ پر
آسمانوں سے اتر آئی پری فٹ پاتھ پر
کوئی جگنو ہے نہ سایہ دور تک برسات میں
دهیمی دهیمی ہو رہی ہے روشنی فٹ پاتھ پر
اس نے منگوايا تھا مجھ سے میری کوٹھی کا پتہ
بھیج دی میں نے بناكر جھوپڑی فٹ پاتھ پر
بستياں آباد ہیں اور لوگ ہیں بے گھر تمام
کس قدر بکھری ہوئی ہے زندگی فٹ پاتھ پر
کل جہاں تم بولتے تھے ساتھ نہ چھوڑیں گے ہم
آج تک تنہا کھڑا ہوں میں اسی فٹ پاتھ پر
شاعر مرادآبادی
Natasha
06-Jun-2023 01:42 PM
Shandar
Reply